تدریس بطور پیشہ
حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہُ اللہ تعالٰی اساتذہ سے خطاب کرتے ہوۓ فرماتے ہیں
آپ نے جوراستہ انتخاب کیا ہے یا مرضی الٰہی نے آپ کیلۓ پسند کیا ہے۔وہ معاشی حوصلہ مندیوں اور دنیاوی سر بلندیوں کا راستہ نہیں ہے اس راستہ میں قربانیاں دینی پڑتی ہے۔ بعض اساتزہ کا کہنا یہ ہے کہ استاذ کو پہلی مرتبہ جس دن تنخواہ ملے اُس دن دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا مانگے کہ ۔ اے اللہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں آپ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہیں۔ آپ میرے اور میرے گھر والوں کی تمام ضروریات سے واقف ہیں آپ اپنے فضل و کرم سے آپ ان کو پورا فرما دیجۓ۔ یہ تنخواہ ان سب ضروریات کیلۓ شاید کافی نہ ہو۔ لیکن آپ اس میں ایسی برکت عطا فرما دیجۓ۔ کہ پورا مہینہ خوش حالی سے گزر جاۓ ۔ یقین کریں کہ آپ کے اس عمل پر اللہ تعالٰی بہت خوش ہونگے اور لوگوں نے تو صرف لفظ برکت سن رکھا ہے۔ اللہ تعالٰی آپ کو واقعی برکت دکھا ٸنگے۔ دوسروں کے لاکھوں روپیوں میں وہ کام نہ ہونگے جو آپ کے ہزار روپے میں ہوجا ٸنگے۔ دوسروں کو۔ اٸیر کنڈیشنڈ۔ کی ٹھنڈک سے کمرے میں وہ سکون نہیں ملے گا جو آپ کو آواز کرتے ہوۓ پنکھے سے ملے گا۔ دوسروں کو۔ چکن بروسٹ۔ کھاکر بھی۔ بے چینی ہی رہےگی آپ کو۔شوربہ والی دال ۔ ہی آسودہ کردے گی۔ دوسروں کو۔ واٹر بیڈ ۔ پر بھی اطمینان نہیں ملے گا آپ کو فرش پر بھی میٹھی نیند آٸیگی ۔ اصل میں لوگ کثرت اوربرکت کا فرق نہیں جانتے یا برکت کا صرف لفظ جانتے ہیں ۔ حقیقت نہیں معلوم ۔ آپ کے ساتھ ان شاء اللہ تعالٰی وہ معاملہ ہوگا ۔جو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالٰی سے بیعت ہونےپر فرمایا تھا ۔۔۔مجھے صرف مٹھاٸیوں کے نام معلوم تھے ۔۔۔۔۔۔حاجی صاحب رحمہ اللہ تعالٰی نے ذاٸقہ چکھا دیا ۔۔ یعنی برکت کا کھلی آنکھوں آپ کو مشاہدہ ہوگیا
بحوالہ ۔ مثالی استاذ ۔
نوٹ ۔ سارے معلم حضرات کو شٸیر کریں اور احقر کو بھی دعا میں یاد رکھیں
فقط والسلام
اقرار شیخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہار