اہل محبت آزمائے بھی جاتے ہیں

ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا کا عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ان کی شادی ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کو حسن و جمال بھی عجیب دیا تھا اور شادی بھی ایک بڑے امیر کبیر صحابی سے ہوئی کہ جن کے پاس رزق کی فراخی تھی، ہر طرح کے عیش و آرام کے سامان تھے میاں بیوی میں خوب محبت تھی اور اچھا وقت گزر رہا تھا، حتی کہ بیوی اپنے خاوند کی خدمت بھی کرتی اور انہیں خوش بھی رکھتی دونوں میاں بیوی خوشی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ ایک رات خاوند سو چکا تھا’ وہ پانی کا پیالہ لے کر کھڑی رہی حتی کہ جب ان کی دوبارہ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ بیوی پانی لے کر کھڑی ہے وہ بڑے خوش ہوئے انہوں نے اٹھ کر پانی پیا اور بیوی سے کہا میں اتنا خوش ہوں کہ تم اتنی دیر پانی کا پیالہ لے کر میرے انتظار میں کھڑی رہی آج تم جو کہوگی میں تمہاری فرمائش پوری کروں گا۔ جب خاوند نے یہ کہا تو بیوی کہنے لگی کیا آپ اپنی بات میں پکے ہیں کہ جو کہوں گی آپ پورا کریں گے؟ کہنے لگے ہاں پورا کر کے دکھاؤں گا۔ کہنے لگی کہ اچھا پھر آپ مجھے طلاق دے کر فارغ کر دیجئے۔ اب جب طلاق کی بات ہوئی تو وہ صحابی رض بہت پریشان ہوئے کہ اتنی خوبصورت خوب سیرت اتنی وفادار اور خدمت گزار بیوی کہہ رہی ہے کہ آپ مجھے طلاق دے دیجئے پوچھنے لگے بی بی ! کیا تجھے مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہے؟ کہنے لگی بالکل نہیں بی بی ! کیا میں نے آپ کی بے قدری کی ہے؟ ہرگز نہیں، کوئی آپ کی امیدوں کو تو ڑا ہے کوئی آپ کی بات پوری نہیں کی ؟ نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں، بی بی ! کیا آپ مجھ سے خفا ہیں؟ کہنے لگی ہرگز نہیں تو پھر مجھ سے طلاق کیوں چاہتی ہو کیا آپ مجھے پسند نہیں کرتیں؟ کہنے لگی یہ بات بھی نہیں پسند بھی بہت کرتی ہوں، محبت کرتی ہوں اسی لیے خدمت کرتی ہوں آپ نے کہا تھا کہ میں آپ کی بات کو پورا کروں گا لہذا آپ مجھے طلاق دے کر فارغ کر دیں ،وہ صحابی حیران ہیں کہ قول بھی دے بیٹھے کہنے لگے اچھا صبح ہوگی تو ہم نبی علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گئے اور آپ میں اللہ ہم سے جا کر فیصلہ کروالیں گے وہ کہنے لگی بہت اچھا چنانچہ میاں بیوی رات کو سو گئے۔ صبح ہوئی تو بیوی کہنے لگی کہ چلو جلدی چلتے ہیں چنانچہ دونوں میاں بیوی گھر سے نکلے تھے کہ خاوند کا کسی وجہ سے پاؤں اٹکا اور وہ نیچے گرے اور ان کے جسم سے خون نکلنے لگا بیوی نے فوراً اپنا دوپٹہ پھاڑا اور خاوند کے زخم پر پٹی باندھی اس کے بعد اس کو سہارا دیا اور کہنے لگی کہ چلو گھر واپس چلتے ہیں۔ میں آپ سے طلاق نہیں لیتی وہ حیران ہوئے کہ جب تم نے طلاق کا مطالبہ کیا تو نہ مجھے اس وقت سمجھ میں آیا اور اب کہتی ہو کہ طلاق نہیں چاہئے تو نہ اب مجھے سمجھ میں آسکا، کہنے لگی گھر تشریف لے چلیں وہاں جا کر میں آپ کو بات بتادوں گی۔ جب گھر جا کر بیٹھے تو کہنے لگے کہ مجھے بتاؤ تو سہی کیا بات ہے کہنے لگی آپ نے چند دن پہلے نبی علیہ السلام کی حدیث سنائی تھی کہ جس بندے سے اللہ رب العزت محبت کرتے ہیں اس بندے کے اوپر اس طرح پریشانیاں آتی ہیں جس طرح پانی اونچائی سے ڈھلوان کی طرف جایا کرتا ہے میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا فرمان سنا میں دل میں سوچتی رہی کہ میں نے آپ کے گھر میں کوئی پریشانی نہیں دیکھی کوئی غم نہیں دیکھا، کوئی مصیبت نہیں دیکھی تو میرے دل میں خیال آیا کہ میرے آقا کی بات سچی ہے ایسا تو نہیں کہ میرے خاوند کے ایمان میں فرق ہو میرے خاوند کے اعمال میں فرق ہو میرے خاوند سے اگر پروردگار کو محبت نہیں تو میں اس بندے کی کیا خدمت کروں گئی اس لیے جب آپ نے کہا کہ میں تمہاری بات پوری کمروں گا تو میں نے کہا کہ میں اس بندے سے طلاق چاہتی ہوں، جس سے میرے پروردگار محبت نہیں کرتے پھر جب ہم حضور من اللہ یم کی خدمت میں علم حاصل کرنے کیلئے جارہے تھے یہ اللہ کا راستہ تھا آپ گرے اور خون نکلا تو میں فوراً سمجھ گئی کہ آپ کو اللہ کے راستہ کا غم پہنچا، مصیبت پہنچی تکلیف پہنچی یقینا اللہ تعالیٰ کو آپ سے پیار ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ناراضگی کی وجہ سے خوشیاں نہیں دی ہوئیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو آپ سے محبت ہے اب مجھے طلاق لینے کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے میں ساری زندگی آپ کی خادمہ بن کر آپ کی خدمت کیا کروں گی۔سبحان اللہ ۔
(خطبات ص ۷۴ ج:۵)

ذکر دنیا کر کے دیکھا فکر عقبی کر کے دیکھ
سب کو اپنا کر کے دیکھا رب کو اپنا کر کے دیکھ

حکومت تو لیلیٰ کو سجتی ہے

ایک دفعہ مجنون جا رہا تھا ان دنوں حضرت حسن حضرت امیر معاویہ کے حق میں دست بردار ہو گئے تھے اور حکومت ان کے حوالے کر دی تھی ملاقات ہوئی سلام جواب ہوا حضرت حسن رض نے فرمایا کہ میں خلافت سے دست بردار ہو گیا ہوں۔ اور میں نے حکومت انہیں کو دے دی، جن کو سجتی تھی جب اس نے سنا تو کہنے لگا کہ حضرت میرے خیال میں تو حکومت لیلی کو سجتی ہے حضرت نے فرمایا ” انت مجنون تو تو مجنون ہے تب سے اس کا نام قیس کی جگہ مجنون پڑ گیا دیوانہ تھا بے چارہ اپنے بس میں نہیں تھا۔ ( تمنائے دل ص ۳۵) ایک مرتبہ اس کے باپ نے کہا بیٹا بہت بدنامی ہوگئی لہذا دعا مانگ کہ اے اللہ لیلی کی محبت کو میرے دل سے نکال دیجئے ختم کر دیجئے اس نے فورا ہاتھ اٹھائے اور دعا مانگی کہ “اللهم زدنی حب لیلی “اے اللہ لیلیٰ کی محبت کو اور بڑھادیجئے چنانچہ اس کے والد ایک مرتبہ پکڑ کر بیت اللہ لے گئے، کہنے لگے کہ بہت بدنامی ہو گئی آج میں تجھے نہیں چھوڑوں گا

جب تک کہ تو سچی توبہ نہ کرے چل تو بہ کر یہ تو بہ کرنے لگا تو اس نے کہا۔ الهى تبت من كل المعاصي ولكن حب ليلى لا اتوب اللہ میں نے ہر گناہ سے توبہ کرلی لیکن لیلی کی محبت سے تو یہ نہیں کرتا اس کے والد نے ناراض ہو کر کہا کہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ جب وہ بہت زیادہ ناراض ہوئے تو اس نے مجبور ہو کر ہاتھ اٹھائے اور والد کے سامنے دعا مانگنے لگا۔ (عشق النبی ص ۵۵) الهى لا تسلبني حبها ابدا ورحم الـلـه عبـداقـــال آمينا یا اللہ اس کی محبت میرے دل سے کبھی نہ نکالنا اور اللہ اس بندے پر رحم کرے جو اس دعا پر آمین کہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *